آج کل والدین اور اساتذہ دونو ں بچوں کے بارے میں عموماً جو شکایت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بچوں میں اب پڑھائی کا شوق نہیں ہے۔ بچے اِدھر اُدھرکی مشغولیت میں لگے رہتے ہیں اور پڑھائی پر کم توجہ دیتے ہیں۔ گویا بچوں میں پڑھائی کا شوق پیدا کرنا ایک بڑے مسئلے کی صورت میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس کا سامنا بالخصوص اساتذہ اور والدین کو کرنا پڑتا ہے۔ ذیل میں ہم بچوں میں تعلیم کے لیے رغبت اور ان میں پڑھائی کا شوق پیدا کرنے کی کچھ تجاویز قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
اگر کسی انسان کو اس کے اختیار اور مرضی کو دبائیں گے تو اس کی خودی، شوق اور فکری نشوونما بری طرح متاثر ہو گی۔ اس لیےشوق اور اختیار کے بغیر بہترین کتابیں، اچھے اساتذہ اور اعلیٰ معیار کے اداروں کی چمک بھی بچے کو پڑھنے اور کام کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ جس طرح بھوک، پیاس انسان کا فطری داعیہ ہے اسی طرح بھی شوق ایک فطری داعیہ ہے۔ انسان میں شوق کا داعیہ ودیعت بھی کیا گیا ہے اور وہ خارجی فطرت سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ بچہ صرف ذہانت اور استعداد کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کے اندر دل چسپی، اشتیاق اور رغبت کی دولت نہ ہو۔ استاد بچوں میں ترغیب، شوق اور دل چسپی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ کمرا جماعت میں ہر بچے کو اس کے مزاج اور رجحان کی بنیاد پر اس کی پڑھائی، محنت اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا استاد کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ یہاں ہم ان پہلوؤں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو بچوں میں شوق پیدا کرنے میں ممد و معاون ہوں گے لیکن ساتھ ان باتوں کا بھی تذکرہ کریں گے جن سے شوق ختم ہو جاتا ہے۔
خود اعتمادی اور ضبط نفس (سیلف کنٹرول) سکھائیے
بچے چھوٹی عمر میں ہر کام خود کرنے کا شوق رکھتے ہیں، جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ہم ان پر اپنی مرضی تھوپ کر ان کے اختیار کا حق چھین لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر شوق مر جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو بڑی عمر میں بھی ان کی مرضی اور اختیار سے کام کرنے کا موقع دیجیے۔ بچوں کو خود کام کرنے کی تربیت دیجیے۔ ان کو سکھائیے کہ غصہ پر کیسے قابو پایا جاتا ہے، کسی کی مدد کرنے کے کون کون سے مواقع ہو سکتے ہیں اور دوسروں کی عزت نفس کیا خیال کیسے رکھا جاتا ہے۔
ڈر کے آگے جیت ہے
خوف یا ڈر انسان کے شوق کا قاتل اور آگے بڑھنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ بچوں کو ڈرا دھمکا کر ان میں پڑھنے لکھنے کی عادت تو ڈال سکتے ہیں لیکن ان کا شوق مر جاتا ہے، وہ جلد پڑھنے لکھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ محفوظ اور دوستانہ ماحول بچوں کی صلاحیتوں کے اظہار اور پڑھائی میں دل چسپی کے لیے از حد ضروری ہے۔ ان پر تدریسی حملہ مت کیجیے، تدریسی انداز میں جدت اور تنوع پیدا کیجیے۔ ان کے لیے جلاد مت بنیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دن وہ آپ کو دیکھتے ہی رستہ بدل لیں۔
باہر کی دنیا سے واقف کرائیے
کمرا جماعت سیکھنے سکھانے کی بہترین جگہ ہے، لیکن روزانہ کمرا جماعت میں آنا جانا اور سارا دن ڈیسک پر گزارنا بعض اوقات بیزاری سبب بنتا ہے۔ بچوں کو باہر کی دنیا سے بھی آشنا کیجیے، خاص طور پر سائنس اور سماج کی سمجھ بوجھ کے لیے کمرا جماعت سے باہر جا کر سمجھائیے، اس طرح وہ زیادہ بہتر طور سمجھ پائیں گے۔ اس مقصد کے لیے چڑیا گھر، پارک، تاریخی مقامات یا نمائش کا فیلڈ ٹرپ، لائبریریوں کا دورہ اور کھیلوں کے مقابلوں (میچز) وغیرہ میں شرکت سے ان کے مشاہدے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور مطالعے کا شوق پیدا ہو گا۔ انسانی ذہن تجسس کو پسند کرتا ہے، منظر بدلیں گے تو ذہن کے بند دریچے کھلیں گے اور بچوں میں شوق اور خواہش میں اضافہ ہو گا۔ خارجی فطرت سے تعامل یا نیچر تھراپی اندرونی فطرت کی طمانیت اور ذہنی شفا کا درجہ رکھتی ہے۔
انعام دو شوق بڑھاؤ
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کارکردگی پر اسے سراہا اور اس کے کام کی قدر کی جائے۔ بچوں کو انعامات دینا بہتر نتائج حاصل کرنے کا کارگر طریقہ ہے۔ ہم چھوٹی عمر میں تو ان کو انعامات کا لالچ دیتے ہیں لیکن جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالاں کہ ہر عمر کے بچے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی مہنگی چیز کا انتخاب کیا جائے، شاباش کے چند جاندار الفاظ، ان کی نوٹ بک پر ستارے یا پھول بنا کر تبصرہ لکھنا، کمرا جماعت میں پارٹی اور تالیاں بجانا بھی کافی ہے۔ لیکن صورت حال اور بچے کی شخصیت کے مطابق انعام کا تعین کیا جائے۔
احساس ذمہ داری سکھائیے
بچے ہمیشہ بڑوں کو دیکھ کر کام کرتے ہیں، کمرا جماعت میں بچوں کو مختلف ذمہ داریاں تقسیم کیجیے، یہ ان کے سماجی کردار کو تعمیر کرنے اور شوق اور تحریک کے جذبے میں اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔ اکثر بچے کمرا جماعت کی ذمہ داریوں کو بوجھ کے بجائے اعزاز سمجھتے ہیں اور اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کو قائدانہ سرگرمیاں دیجیے جیسے جماعت کی مختلف کمیٹیاں بنائیے، دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے مسائل حل کرنے کی تربیت دیجیے۔ اس سے بچوں میں اپنی اہمیت اور قدر کا احساس پیدا ہو گا۔
شاباش کے دو بول
شوق پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی اور شاباش دینے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بچے ہر سطح پر حوصلہ افزائی اور سراہائے جانے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ ان کی کامیابی کو لوگوں میں بیان کریں، ان کے کام پر شاباش دیں اور ان کے مثالی کام کو شیئر کریں۔
ہر دم تر و تازہ اور پرجوش رہیے
بعض اساتذہ سمجھتے ہیں کہ چہرے پر ہر وقت سنجیدگی اور سخت مزاجی سے بچوں کو سنبھالنا زیادہ آسان ہوتا ہے ورنہ بچے بگڑ جاتے ہیں۔ جس طرح حد سے زیادہ لاڈ پیار بچے کو بگاڑ دیتا ہے اسی طرح زبردستی اور سخت مزاجی سے بھی بچوں میں بیزاری پیدا ہوتی ہے کمرا جماعت میں خوشگوار موڈ اور جوش کا مظاہرہ کیجیے۔ اگر آپ دوران تدریس پرجوش رہیں گے تو بچے بھی آپ کو دیکھ کر تر و تازہ اور جوش و جذبے سے معمور ہوں گے۔
بچوں میں ذاتی ترغیب (موٹیویشن) پیدا کرنے میں مدد کیجیے
بچوں میں شوق پیدا کرنے کے لیے ان کی مدد کرنا قابل قدر ہے لیکن اصل کام ان میں داخلی شوق کو پروان چڑھانا ہے۔ کلاس روم سے نکلنے کے بعد بچے اپنی ذاتی شوق سے کام کر سکیں۔ چھوٹی عمر میں بچے بیرونی ترغیب کے بغیر وہ سب کام کرتے ہیں جنھیں کرتے ہوئے ہم بڑی عمر میں تردد کا شکار ہوتے ہیں جیسے وزن اٹھانا، جوتے پالش کرنا، کپڑے دھونا وغیرہ۔ یہ کام وہ اختیار اور مرضی سے کرتے ہیں اس لیے بچے میں اختیار کی موجودگی کا احساس مستقل رہنا چاہیے۔ اگر اچھے شوق کے باوجود اس سے اختیار چھین لیا جائے تو وہ بیزار ہو جاتا ہے اور زمانے کی بھیڑ چال میں رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اس لیے بچے کو اختیار اور شوق کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں۔ جیسے وہ اپنی دل چسپی کا مواد تلاش کر سکے، اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے شوق کا میدان منتخب کر سکے اور علم سے محبت پیدا ہو وغیرہ، یہ آپ کی طرف سے بچوں کو بہترین تحفہ ہو گا۔
بچوں کو نفسیاتی مریض مت بنائیے
بعض بچے والدین اور اساتذہ کی طرف سے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے پڑھنے میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اعلیٰ نمبروں یا گریڈز کے لیے دن رات ایک کیے رہتے ہیں۔ اول آنے کی دُھن نے بچوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ نمبر گیم کے گھن چکر میں بچہ امتحان جیت جاتا ہے کہ لیکن ہم بچے کو ہار بیٹھتے ہیں۔ بچوں یہ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ کسی ایک مضمون میں سخت محنت کرنا یا صرف گریڈز کی دوڑ ہی کامیابی کی علامت نہیں، وہ نتیجے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہ ہوں، ایسا نہ ہو کہ وہ خود ساختہ توقعات پر پورا نہ اترنے پر مایوسی کی گھاٹیوں میں جا گریں۔
بڑے خواب ضرور دکھائیے لیکن جن کی تعبیر ممکن ہو
جس طرح بچوں کو صرف گریڈز اور اول آنے کی دوڑ کا عادی بنانا غیر مناسب اور نقصان دہ ہے اسی طرح بچوں کو اپنی کم سے کم بساط سے اونچے مقاصد کے حصول کے لیے تیار نہ کرنا بھی اپنے مقام سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ بچوں کو اتنا ڈھیلا اور بے پروا بھی نہ کیا جائے کہ وہ اپنی دنیا ہی گنوا بیٹھیں۔ بچوں کو چیلنجز سے نبٹنے اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سخت محنت کا عادی بنائیے۔ بچوں کو بڑے اور باتعبیر خواب دکھانے سے خوف زدہ نہ ہوں۔
مسلسل نگرانی کیجیے
طلبہ کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کتنی بہتری اور ترقی کے درجے پر پہنچ چکے ہیں بالخصوص مشکل مضامین میں۔ اس لیے تعلیمی سرگرمیوں کی مسلسل ٹریکنگ یا نگرانی استاد اور طالب دونوں کے لیے مفید ہے۔ اس طرح سے استاد مسلسل طالب علم میں تحریک اور ترغیب میں اضافہ کرتا رہتا ہے، اور تعلیمی دورانیے میں وقفے وقفے سے طالب علم اپنی پراگریس کے مطابق پڑھائی میں دل چسپی برقرار رکھتا ہے۔
تفریح بھی ضروری ہے
بچوں میں شوق کو برقرار رکھنے کے لیے تفریح بھی بہت ضروری ہے۔ کمرا جماعت میں کھیلنا تو ممکن نہیں ہوتا لیکن کلاس روم میں خوشگوار اور تفریح کا ماحول ہو تو طلبہ کی توجہ اور دل چپسی بڑھتی ہے۔ کلاس روم میں تفریحی سرگرمیاں شامل کرنے سے کلاس روم کا ماحول مزید دوستانہ بنے گا، طلبہ میں محنت کرنے میں دل لگے گا اور شوق سے محنت کریں گے۔
کامیابی کے مواقع سے آگاہ کیجیے
اگر طلبہ کو یہ محسوس ہو کہ ان محنت رنگ نہیں لائے گی یا دوسرے طلبہ کی طرح ان کی کامیابیوں نہیں سراہا جا رہا تو ان کا الجھن اور بوریت کی طرف رجحان بڑھے گا۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ ہر بچے اپنی استعداد کو بروئے کار لا سکے، اس کی محنت اور کام کو اہمیت دی جائے اور اسے سراہا جائے۔ اس طرح ایسی دنیا تشکیل پائے گی جہاں شوق اور ترغیب کو جگہ ملے گی۔
Source: received through WhatsApp message
اگر کسی انسان کو اس کے اختیار اور مرضی کو دبائیں گے تو اس کی خودی، شوق اور فکری نشوونما بری طرح متاثر ہو گی۔ اس لیےشوق اور اختیار کے بغیر بہترین کتابیں، اچھے اساتذہ اور اعلیٰ معیار کے اداروں کی چمک بھی بچے کو پڑھنے اور کام کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ جس طرح بھوک، پیاس انسان کا فطری داعیہ ہے اسی طرح بھی شوق ایک فطری داعیہ ہے۔ انسان میں شوق کا داعیہ ودیعت بھی کیا گیا ہے اور وہ خارجی فطرت سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ بچہ صرف ذہانت اور استعداد کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کے اندر دل چسپی، اشتیاق اور رغبت کی دولت نہ ہو۔ استاد بچوں میں ترغیب، شوق اور دل چسپی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ کمرا جماعت میں ہر بچے کو اس کے مزاج اور رجحان کی بنیاد پر اس کی پڑھائی، محنت اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا استاد کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ یہاں ہم ان پہلوؤں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو بچوں میں شوق پیدا کرنے میں ممد و معاون ہوں گے لیکن ساتھ ان باتوں کا بھی تذکرہ کریں گے جن سے شوق ختم ہو جاتا ہے۔
خود اعتمادی اور ضبط نفس (سیلف کنٹرول) سکھائیے
بچے چھوٹی عمر میں ہر کام خود کرنے کا شوق رکھتے ہیں، جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ہم ان پر اپنی مرضی تھوپ کر ان کے اختیار کا حق چھین لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر شوق مر جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو بڑی عمر میں بھی ان کی مرضی اور اختیار سے کام کرنے کا موقع دیجیے۔ بچوں کو خود کام کرنے کی تربیت دیجیے۔ ان کو سکھائیے کہ غصہ پر کیسے قابو پایا جاتا ہے، کسی کی مدد کرنے کے کون کون سے مواقع ہو سکتے ہیں اور دوسروں کی عزت نفس کیا خیال کیسے رکھا جاتا ہے۔
ڈر کے آگے جیت ہے
خوف یا ڈر انسان کے شوق کا قاتل اور آگے بڑھنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ بچوں کو ڈرا دھمکا کر ان میں پڑھنے لکھنے کی عادت تو ڈال سکتے ہیں لیکن ان کا شوق مر جاتا ہے، وہ جلد پڑھنے لکھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ محفوظ اور دوستانہ ماحول بچوں کی صلاحیتوں کے اظہار اور پڑھائی میں دل چسپی کے لیے از حد ضروری ہے۔ ان پر تدریسی حملہ مت کیجیے، تدریسی انداز میں جدت اور تنوع پیدا کیجیے۔ ان کے لیے جلاد مت بنیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دن وہ آپ کو دیکھتے ہی رستہ بدل لیں۔
باہر کی دنیا سے واقف کرائیے
کمرا جماعت سیکھنے سکھانے کی بہترین جگہ ہے، لیکن روزانہ کمرا جماعت میں آنا جانا اور سارا دن ڈیسک پر گزارنا بعض اوقات بیزاری سبب بنتا ہے۔ بچوں کو باہر کی دنیا سے بھی آشنا کیجیے، خاص طور پر سائنس اور سماج کی سمجھ بوجھ کے لیے کمرا جماعت سے باہر جا کر سمجھائیے، اس طرح وہ زیادہ بہتر طور سمجھ پائیں گے۔ اس مقصد کے لیے چڑیا گھر، پارک، تاریخی مقامات یا نمائش کا فیلڈ ٹرپ، لائبریریوں کا دورہ اور کھیلوں کے مقابلوں (میچز) وغیرہ میں شرکت سے ان کے مشاہدے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور مطالعے کا شوق پیدا ہو گا۔ انسانی ذہن تجسس کو پسند کرتا ہے، منظر بدلیں گے تو ذہن کے بند دریچے کھلیں گے اور بچوں میں شوق اور خواہش میں اضافہ ہو گا۔ خارجی فطرت سے تعامل یا نیچر تھراپی اندرونی فطرت کی طمانیت اور ذہنی شفا کا درجہ رکھتی ہے۔
انعام دو شوق بڑھاؤ
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کارکردگی پر اسے سراہا اور اس کے کام کی قدر کی جائے۔ بچوں کو انعامات دینا بہتر نتائج حاصل کرنے کا کارگر طریقہ ہے۔ ہم چھوٹی عمر میں تو ان کو انعامات کا لالچ دیتے ہیں لیکن جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالاں کہ ہر عمر کے بچے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی مہنگی چیز کا انتخاب کیا جائے، شاباش کے چند جاندار الفاظ، ان کی نوٹ بک پر ستارے یا پھول بنا کر تبصرہ لکھنا، کمرا جماعت میں پارٹی اور تالیاں بجانا بھی کافی ہے۔ لیکن صورت حال اور بچے کی شخصیت کے مطابق انعام کا تعین کیا جائے۔
احساس ذمہ داری سکھائیے
بچے ہمیشہ بڑوں کو دیکھ کر کام کرتے ہیں، کمرا جماعت میں بچوں کو مختلف ذمہ داریاں تقسیم کیجیے، یہ ان کے سماجی کردار کو تعمیر کرنے اور شوق اور تحریک کے جذبے میں اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔ اکثر بچے کمرا جماعت کی ذمہ داریوں کو بوجھ کے بجائے اعزاز سمجھتے ہیں اور اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کو قائدانہ سرگرمیاں دیجیے جیسے جماعت کی مختلف کمیٹیاں بنائیے، دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے مسائل حل کرنے کی تربیت دیجیے۔ اس سے بچوں میں اپنی اہمیت اور قدر کا احساس پیدا ہو گا۔
شاباش کے دو بول
شوق پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی اور شاباش دینے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بچے ہر سطح پر حوصلہ افزائی اور سراہائے جانے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ ان کی کامیابی کو لوگوں میں بیان کریں، ان کے کام پر شاباش دیں اور ان کے مثالی کام کو شیئر کریں۔
ہر دم تر و تازہ اور پرجوش رہیے
بعض اساتذہ سمجھتے ہیں کہ چہرے پر ہر وقت سنجیدگی اور سخت مزاجی سے بچوں کو سنبھالنا زیادہ آسان ہوتا ہے ورنہ بچے بگڑ جاتے ہیں۔ جس طرح حد سے زیادہ لاڈ پیار بچے کو بگاڑ دیتا ہے اسی طرح زبردستی اور سخت مزاجی سے بھی بچوں میں بیزاری پیدا ہوتی ہے کمرا جماعت میں خوشگوار موڈ اور جوش کا مظاہرہ کیجیے۔ اگر آپ دوران تدریس پرجوش رہیں گے تو بچے بھی آپ کو دیکھ کر تر و تازہ اور جوش و جذبے سے معمور ہوں گے۔
بچوں میں ذاتی ترغیب (موٹیویشن) پیدا کرنے میں مدد کیجیے
بچوں میں شوق پیدا کرنے کے لیے ان کی مدد کرنا قابل قدر ہے لیکن اصل کام ان میں داخلی شوق کو پروان چڑھانا ہے۔ کلاس روم سے نکلنے کے بعد بچے اپنی ذاتی شوق سے کام کر سکیں۔ چھوٹی عمر میں بچے بیرونی ترغیب کے بغیر وہ سب کام کرتے ہیں جنھیں کرتے ہوئے ہم بڑی عمر میں تردد کا شکار ہوتے ہیں جیسے وزن اٹھانا، جوتے پالش کرنا، کپڑے دھونا وغیرہ۔ یہ کام وہ اختیار اور مرضی سے کرتے ہیں اس لیے بچے میں اختیار کی موجودگی کا احساس مستقل رہنا چاہیے۔ اگر اچھے شوق کے باوجود اس سے اختیار چھین لیا جائے تو وہ بیزار ہو جاتا ہے اور زمانے کی بھیڑ چال میں رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اس لیے بچے کو اختیار اور شوق کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں۔ جیسے وہ اپنی دل چسپی کا مواد تلاش کر سکے، اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے شوق کا میدان منتخب کر سکے اور علم سے محبت پیدا ہو وغیرہ، یہ آپ کی طرف سے بچوں کو بہترین تحفہ ہو گا۔
بچوں کو نفسیاتی مریض مت بنائیے
بعض بچے والدین اور اساتذہ کی طرف سے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے پڑھنے میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اعلیٰ نمبروں یا گریڈز کے لیے دن رات ایک کیے رہتے ہیں۔ اول آنے کی دُھن نے بچوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ نمبر گیم کے گھن چکر میں بچہ امتحان جیت جاتا ہے کہ لیکن ہم بچے کو ہار بیٹھتے ہیں۔ بچوں یہ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ کسی ایک مضمون میں سخت محنت کرنا یا صرف گریڈز کی دوڑ ہی کامیابی کی علامت نہیں، وہ نتیجے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہ ہوں، ایسا نہ ہو کہ وہ خود ساختہ توقعات پر پورا نہ اترنے پر مایوسی کی گھاٹیوں میں جا گریں۔
بڑے خواب ضرور دکھائیے لیکن جن کی تعبیر ممکن ہو
جس طرح بچوں کو صرف گریڈز اور اول آنے کی دوڑ کا عادی بنانا غیر مناسب اور نقصان دہ ہے اسی طرح بچوں کو اپنی کم سے کم بساط سے اونچے مقاصد کے حصول کے لیے تیار نہ کرنا بھی اپنے مقام سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ بچوں کو اتنا ڈھیلا اور بے پروا بھی نہ کیا جائے کہ وہ اپنی دنیا ہی گنوا بیٹھیں۔ بچوں کو چیلنجز سے نبٹنے اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سخت محنت کا عادی بنائیے۔ بچوں کو بڑے اور باتعبیر خواب دکھانے سے خوف زدہ نہ ہوں۔
مسلسل نگرانی کیجیے
طلبہ کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کتنی بہتری اور ترقی کے درجے پر پہنچ چکے ہیں بالخصوص مشکل مضامین میں۔ اس لیے تعلیمی سرگرمیوں کی مسلسل ٹریکنگ یا نگرانی استاد اور طالب دونوں کے لیے مفید ہے۔ اس طرح سے استاد مسلسل طالب علم میں تحریک اور ترغیب میں اضافہ کرتا رہتا ہے، اور تعلیمی دورانیے میں وقفے وقفے سے طالب علم اپنی پراگریس کے مطابق پڑھائی میں دل چسپی برقرار رکھتا ہے۔
تفریح بھی ضروری ہے
بچوں میں شوق کو برقرار رکھنے کے لیے تفریح بھی بہت ضروری ہے۔ کمرا جماعت میں کھیلنا تو ممکن نہیں ہوتا لیکن کلاس روم میں خوشگوار اور تفریح کا ماحول ہو تو طلبہ کی توجہ اور دل چپسی بڑھتی ہے۔ کلاس روم میں تفریحی سرگرمیاں شامل کرنے سے کلاس روم کا ماحول مزید دوستانہ بنے گا، طلبہ میں محنت کرنے میں دل لگے گا اور شوق سے محنت کریں گے۔
کامیابی کے مواقع سے آگاہ کیجیے
اگر طلبہ کو یہ محسوس ہو کہ ان محنت رنگ نہیں لائے گی یا دوسرے طلبہ کی طرح ان کی کامیابیوں نہیں سراہا جا رہا تو ان کا الجھن اور بوریت کی طرف رجحان بڑھے گا۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ ہر بچے اپنی استعداد کو بروئے کار لا سکے، اس کی محنت اور کام کو اہمیت دی جائے اور اسے سراہا جائے۔ اس طرح ایسی دنیا تشکیل پائے گی جہاں شوق اور ترغیب کو جگہ ملے گی۔
Source: received through WhatsApp message