Skip to main content

How to educate a child: (Article written in Urdu)-)

آج کل والدین اور اساتذہ دونو ں بچوں کے بارے میں عموماً جو شکایت کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بچوں میں اب پڑھائی کا شوق نہیں ہے۔ بچے اِدھر اُدھرکی مشغولیت میں لگے رہتے ہیں اور پڑھائی پر کم توجہ دیتے ہیں۔ گویا بچوں میں پڑھائی کا شوق پیدا کرنا ایک بڑے مسئلے کی صورت میں ابھر کر سامنے آ رہا ہے جس کا سامنا بالخصوص اساتذہ اور والدین کو کرنا پڑتا ہے۔ ذیل میں ہم بچوں میں تعلیم کے لیے رغبت اور ان میں پڑھائی کا شوق پیدا کرنے کی کچھ تجاویز قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

اگر کسی انسان کو اس کے اختیار اور مرضی کو دبائیں گے تو اس کی خودی، شوق اور فکری نشوونما بری طرح متاثر ہو گی۔ اس لیےشوق اور اختیار کے بغیر بہترین کتابیں، اچھے اساتذہ اور اعلیٰ معیار کے اداروں کی چمک بھی بچے کو پڑھنے اور کام کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ جس طرح بھوک، پیاس انسان کا فطری داعیہ ہے اسی طرح بھی شوق ایک فطری داعیہ ہے۔ انسان میں شوق کا داعیہ ودیعت بھی کیا گیا ہے اور وہ خارجی فطرت سے بھی متاثر ہوتا ہے۔ بچہ صرف ذہانت اور استعداد کی بنیاد پر کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اس کے اندر دل چسپی، اشتیاق اور رغبت کی دولت نہ ہو۔ استاد بچوں میں ترغیب، شوق اور دل چسپی پیدا کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے۔ کمرا جماعت میں ہر بچے کو اس کے مزاج اور رجحان کی بنیاد پر اس کی پڑھائی، محنت اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنا استاد کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ یہاں ہم ان پہلوؤں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو بچوں میں شوق پیدا کرنے میں ممد و معاون ہوں گے لیکن ساتھ ان باتوں کا بھی تذکرہ کریں گے جن سے شوق ختم ہو جاتا ہے۔

خود اعتمادی اور ضبط نفس (سیلف کنٹرول) سکھائیے
بچے چھوٹی عمر میں ہر کام خود کرنے کا شوق رکھتے ہیں، جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ہم ان پر اپنی مرضی تھوپ کر ان کے اختیار کا حق چھین لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر شوق مر جاتا ہے۔ اس لیے بچوں کو بڑی عمر میں بھی ان کی مرضی اور اختیار سے کام کرنے کا موقع دیجیے۔ بچوں کو خود کام کرنے کی تربیت دیجیے۔ ان کو سکھائیے کہ غصہ پر کیسے قابو پایا جاتا ہے، کسی کی مدد کرنے کے کون کون سے مواقع ہو سکتے ہیں اور دوسروں کی عزت نفس کیا خیال کیسے رکھا جاتا ہے۔

ڈر کے آگے جیت ہے
خوف یا ڈر انسان کے شوق کا قاتل اور آگے بڑھنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ آپ بچوں کو ڈرا دھمکا کر ان میں پڑھنے لکھنے کی عادت تو ڈال سکتے ہیں لیکن ان کا شوق مر جاتا ہے، وہ جلد پڑھنے لکھنے سے بیزار ہو جاتے ہیں۔ محفوظ اور دوستانہ ماحول بچوں کی صلاحیتوں کے اظہار اور پڑھائی میں دل چسپی کے لیے از حد ضروری ہے۔ ان پر تدریسی حملہ مت کیجیے، تدریسی انداز میں جدت اور تنوع پیدا کیجیے۔ ان کے لیے جلاد مت بنیے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دن وہ آپ کو دیکھتے ہی رستہ بدل لیں۔

باہر کی دنیا سے واقف کرائیے
کمرا جماعت سیکھنے سکھانے کی بہترین جگہ ہے، لیکن روزانہ کمرا جماعت میں آنا جانا اور سارا دن ڈیسک پر گزارنا بعض اوقات بیزاری سبب بنتا ہے۔ بچوں کو باہر کی دنیا سے بھی آشنا کیجیے، خاص طور پر سائنس اور سماج کی سمجھ بوجھ کے لیے کمرا جماعت سے باہر جا کر سمجھائیے، اس طرح وہ زیادہ بہتر طور سمجھ پائیں گے۔ اس مقصد کے لیے چڑیا گھر، پارک، تاریخی مقامات یا نمائش کا فیلڈ ٹرپ، لائبریریوں کا دورہ اور کھیلوں کے مقابلوں (میچز) وغیرہ میں شرکت سے ان کے مشاہدے کی صلاحیت میں اضافہ ہو گا اور مطالعے کا شوق پیدا ہو گا۔ انسانی ذہن تجسس کو پسند کرتا ہے، منظر بدلیں گے تو ذہن کے بند دریچے کھلیں گے اور بچوں میں شوق اور خواہش میں اضافہ ہو گا۔ خارجی فطرت سے تعامل یا نیچر تھراپی اندرونی فطرت کی طمانیت اور ذہنی شفا کا درجہ رکھتی ہے۔

انعام دو شوق بڑھاؤ
ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کارکردگی پر اسے سراہا اور اس کے کام کی قدر کی جائے۔ بچوں کو انعامات دینا بہتر نتائج حاصل کرنے کا کارگر طریقہ ہے۔ ہم چھوٹی عمر میں تو ان کو انعامات کا لالچ دیتے ہیں لیکن جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے حالاں کہ ہر عمر کے بچے کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ کوئی مہنگی چیز کا انتخاب کیا جائے، شاباش کے چند جاندار الفاظ، ان کی نوٹ بک پر ستارے یا پھول بنا کر تبصرہ لکھنا، کمرا جماعت میں پارٹی اور تالیاں بجانا بھی کافی ہے۔ لیکن صورت حال اور بچے کی شخصیت کے مطابق انعام کا تعین کیا جائے۔

احساس ذمہ داری سکھائیے
بچے ہمیشہ بڑوں کو دیکھ کر کام کرتے ہیں، کمرا جماعت میں بچوں کو مختلف ذمہ داریاں تقسیم کیجیے، یہ ان کے سماجی کردار کو تعمیر کرنے اور شوق اور تحریک کے جذبے میں اضافہ کرنے کا سبب بنے گا۔ اکثر بچے کمرا جماعت کی ذمہ داریوں کو بوجھ کے بجائے اعزاز سمجھتے ہیں اور اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کو قائدانہ سرگرمیاں دیجیے جیسے جماعت کی مختلف کمیٹیاں بنائیے، دوسروں کی مدد کرنا اور ان کے مسائل حل کرنے کی تربیت دیجیے۔ اس سے بچوں میں اپنی اہمیت اور قدر کا احساس پیدا ہو گا۔

شاباش کے دو بول
شوق پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی اور شاباش دینے سے بہتر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔ بچے ہر سطح پر حوصلہ افزائی اور سراہائے جانے کے طلب گار ہوتے ہیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ ان کی کامیابی کو لوگوں میں بیان کریں، ان کے کام پر شاباش دیں اور ان کے مثالی کام کو شیئر کریں۔

ہر دم تر و تازہ اور پرجوش رہیے
بعض اساتذہ سمجھتے ہیں کہ چہرے پر ہر وقت سنجیدگی اور سخت مزاجی سے بچوں کو سنبھالنا زیادہ آسان ہوتا ہے ورنہ بچے بگڑ جاتے ہیں۔ جس طرح حد سے زیادہ لاڈ پیار بچے کو بگاڑ دیتا ہے اسی طرح زبردستی اور سخت مزاجی سے بھی بچوں میں بیزاری پیدا ہوتی ہے کمرا جماعت میں خوشگوار موڈ اور جوش کا مظاہرہ کیجیے۔ اگر آپ دوران تدریس پرجوش رہیں گے تو بچے بھی آپ کو دیکھ کر تر و تازہ اور جوش و جذبے سے معمور ہوں گے۔

بچوں میں ذاتی ترغیب (موٹیویشن) پیدا کرنے میں مدد کیجیے
بچوں میں شوق پیدا کرنے کے لیے ان کی مدد کرنا قابل قدر ہے لیکن اصل کام ان میں داخلی شوق کو پروان چڑھانا ہے۔ کلاس روم سے نکلنے کے بعد بچے اپنی ذاتی شوق سے کام کر سکیں۔ چھوٹی عمر میں بچے بیرونی ترغیب کے بغیر وہ سب کام کرتے ہیں جنھیں کرتے ہوئے ہم بڑی عمر میں تردد کا شکار ہوتے ہیں جیسے وزن اٹھانا، جوتے پالش کرنا، کپڑے دھونا وغیرہ۔ یہ کام وہ اختیار اور مرضی سے کرتے ہیں اس لیے بچے میں اختیار کی موجودگی کا احساس مستقل رہنا چاہیے۔ اگر اچھے شوق کے باوجود اس سے اختیار چھین لیا جائے تو وہ بیزار ہو جاتا ہے اور زمانے کی بھیڑ چال میں رہنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اس لیے بچے کو اختیار اور شوق کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیں۔ جیسے وہ اپنی دل چسپی کا مواد تلاش کر سکے، اعلیٰ تعلیم کے لیے اپنے شوق کا میدان منتخب کر سکے اور علم سے محبت پیدا ہو وغیرہ، یہ آپ کی طرف سے بچوں کو بہترین تحفہ ہو گا۔

بچوں کو نفسیاتی مریض مت بنائیے
بعض بچے والدین اور اساتذہ کی طرف سے نفسیاتی دباؤ کی وجہ سے پڑھنے میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ وہ خود کو اعلیٰ مخلوق سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ اعلیٰ نمبروں یا گریڈز کے لیے دن رات ایک کیے رہتے ہیں۔ اول آنے کی دُھن نے بچوں کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔ نمبر گیم کے گھن چکر میں بچہ امتحان جیت جاتا ہے کہ لیکن ہم بچے کو ہار بیٹھتے ہیں۔ بچوں یہ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ کسی ایک مضمون میں سخت محنت کرنا یا صرف گریڈز کی دوڑ ہی کامیابی کی علامت نہیں، وہ نتیجے کے بارے میں زیادہ فکر مند نہ ہوں، ایسا نہ ہو کہ وہ خود ساختہ توقعات پر پورا نہ اترنے پر مایوسی کی گھاٹیوں میں جا گریں۔

بڑے خواب ضرور دکھائیے لیکن جن کی تعبیر ممکن ہو
جس طرح بچوں کو صرف گریڈز اور اول آنے کی دوڑ کا عادی بنانا غیر مناسب اور نقصان دہ ہے اسی طرح بچوں کو اپنی کم سے کم بساط سے اونچے مقاصد کے حصول کے لیے تیار نہ کرنا بھی اپنے مقام سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ بچوں کو اتنا ڈھیلا اور بے پروا بھی نہ کیا جائے کہ وہ اپنی دنیا ہی گنوا بیٹھیں۔ بچوں کو چیلنجز سے نبٹنے اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سخت محنت کا عادی بنائیے۔ بچوں کو بڑے اور باتعبیر خواب دکھانے سے خوف زدہ نہ ہوں۔

مسلسل نگرانی کیجیے
طلبہ کے لیے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کتنی بہتری اور ترقی کے درجے پر پہنچ چکے ہیں بالخصوص مشکل مضامین میں۔ اس لیے تعلیمی سرگرمیوں کی مسلسل ٹریکنگ یا نگرانی استاد اور طالب دونوں کے لیے مفید ہے۔ اس طرح سے استاد مسلسل طالب علم میں تحریک اور ترغیب میں اضافہ کرتا رہتا ہے، اور تعلیمی دورانیے میں وقفے وقفے سے طالب علم اپنی پراگریس کے مطابق پڑھائی میں دل چسپی برقرار رکھتا ہے۔

تفریح بھی ضروری ہے
بچوں میں شوق کو برقرار رکھنے کے لیے تفریح بھی بہت ضروری ہے۔ کمرا جماعت میں کھیلنا تو ممکن نہیں ہوتا لیکن کلاس روم میں خوشگوار اور تفریح کا ماحول ہو تو طلبہ کی توجہ اور دل چپسی بڑھتی ہے۔ کلاس روم میں تفریحی سرگرمیاں شامل کرنے سے کلاس روم کا ماحول مزید دوستانہ بنے گا، طلبہ میں محنت کرنے میں دل لگے گا اور شوق سے محنت کریں گے۔

کامیابی کے مواقع سے آگاہ کیجیے
اگر طلبہ کو یہ محسوس ہو کہ ان محنت رنگ نہیں لائے گی یا دوسرے طلبہ کی طرح ان کی کامیابیوں نہیں سراہا جا رہا تو ان کا الجھن اور بوریت کی طرف رجحان بڑھے گا۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ ہر بچے اپنی استعداد کو بروئے کار لا سکے، اس کی محنت اور کام کو اہمیت دی جائے اور اسے سراہا جائے۔ اس طرح ایسی دنیا تشکیل پائے گی جہاں شوق اور ترغیب کو جگہ ملے گی۔

Source: received through WhatsApp message

Popular posts from this blog

Building Future Leaders: Independence and Self-Awareness in Childhood:

 - Imagine a garden where seedlings are planted but never nurtured. They may sprout, but without sunlight, water, and careful tending, they will wither and vanish. Similarly, our children possess immense potential, but without the cultivation of essential skills and values, their potential will remain unfulfilled. Education must be more than just the delivery of information; it must be a nurturing process, providing the intellectual, emotional, and ethical nourishment that allows each child to flourish. Image Generated with Gemini AI The Delicate Journey of Independence: Guiding Your Child's Journey to Self-Awareness The transition from childhood to adolescence is delicate, a push and pull between dependence and independence.  As our children grow, their desire to spread their wings and explore the world on their own intensifies. This yearning for autonomy is a natural and vital part of their development. However, simply granting them free rein without guidance can leave them ...

When Progress Steals Our Voices: The Human Cost of Automation:

 - Progress is inevitable, we understand that. But as we embrace the potential of AI, let us not forget the human cost. Let us remember the designers whose creative fire was banked, and let us fight to preserve the irreplaceable heart and soul that fuels the art of writing.  For if we lose our storytellers, we risk losing a fundamental part of ourselves. The ghost in the machine may offer efficiency, but it can never replicate the beating heart behind the words. And that, is a loss we cannot afford. The hum of the new CNC machines still echoes through the workshop, a constant, efficient drone that replaced the familiar scratch of pencils on drafting paper. They are marvels of precision, capable of crafting intricate designs with an accuracy our human hands could only dream of. And yet, with their arrival, a quiet sorrow settled over us. The laughter and camaraderie of the design team thinned. Talented hands, once sketching visions into reality, now sat idle, their creative spa...

Tiny Tummies, Mighty Futures: Why Good Food is Super Important for Little Kids! (Ages 0-8) 🍎🥦🥕🥛🍚:

 -  The article discusses about proper nutrition for children aged 0-8 years, written with an Indian food context and lots of emojis: Tiny Tummies, Mighty Futures: Why Good Food is Super Important for Little Kids! (Ages 0-8) 🍎🥦🥕🥛🍚 Hey Parents👋  Imagine your little one is like a super cool building 🏗️, growing bigger and stronger every single day! To build a super strong building, you need super good materials, right? 💪 Well, for our amazing kids (from tiny babies 👶 all the way to big eight-year-olds! 👧👦), that super good material is  yummy and healthy food!  😋 Image Generated with Gemini AI  For the Littlest Heroes (0-2 years): First Bites! 🥣 Think about tiny babies. They need a good nourishment. The milk is like magic ✨, helping them grow big and strong! As they get a little older, they start trying new yummy foods – soft fruits like mashed banana 🍌 and apple puree 🍎. Think mashed veggies like smooth  dal  (lentils) 🍲 and swe...

The Architect Within: Building a Child's Self-Esteem Brick by Brick:

- "Imagine a child, standing at the edge of a vast, unknown world, their eyes filled with a mixture of hope and fear. They long to explore, to create, to achieve, but a tiny voice inside whispers doubts, telling them they're not capable. That voice, the one that shapes their perception of themselves, can either be a gentle guide or a crippling critic. It's the voice of self-esteem, and it holds the power to either ignite their dreams or extinguish them before they even begin. What kind of architect are we helping them become – one of soaring confidence or one of crumbling doubt?" A child's world is a canvas of possibilities, a landscape where dreams take root and aspirations blossom. But navigating this world requires more than just talent or intelligence; it demands a sturdy foundation of self-esteem. That foundation, however, isn't built by external praise alone.  It's shaped from within, by a child's own perception of their ability to achieve in are...

ಪ್ರೊ. ಕೆ. ಎಸ್. ನಿಸಾರ್ ಅಹಮದ್ ರವರ ಜೀವನ-

- ಪ್ರೊ.  ಕೆ. ಎಸ್. ನಿಸಾರ್ ಅಹಮದ್ ಪ್ರೊ.ಕೆ.ಎಸ್.ನಿಸಾರ್ ಅಹಮದ್ (5 ಫೆಬ್ರುವರಿ 1936 - 3 ಮೇ 2020) ಕನ್ನಡದ ಪ್ರಮುಖ ಸಾಹಿತಿಗಳಾಗಿದ್ದರು. ಅವರ ಪೂರ್ಣ ಹೆಸರು 'ಕೊಕ್ಕರೆಹೊಸಳ್ಳಿ ಶೇಖಹೈದರ ನಿಸಾರ್ ಅಹಮದ್'. ಅವರು ಬರೆದ 'ಜೋಗದ ಸಿರಿ ಬೆಳಕಿನಲ್ಲಿ ತುಂಗೆಯ ತೆನೆ ಬಳುಕಿನಲ್ಲಿ' ಎಂಬ ಪದ್ಯವು ಬಹಳ ಜನಪ್ರಿಯವಾಗಿ ಅವರು ನಿತ್ಯೋತ್ಸವ ಕವಿಯೆಂದೂ ಕರೆಯಲ್ಪಡುತ್ತಿದ್ದರು. Image source: Online typing ಜೀವನ- ಪ್ರೊ. ನಿಸಾರ್ ಅಹಮದ್ ಬೆಂಗಳೂರು ಜಿಲ್ಲೆಯ ದೇವನಹಳ್ಳಿಯಲ್ಲಿ ಫೆಬ್ರುವರಿ ೫, ೧೯೩೬ ರಲ್ಲಿ ಜನಿಸಿದರು. ೧೯೫೯ ರಲ್ಲಿ ಭೂವಿಜ್ಞಾನದಲ್ಲಿ ಸ್ನಾತಕೋತ್ತರ ಪದವಿ ಪಡೆದರು. ೧೯೯೪ ರ ವರೆಗೆ ವಿವಿಧ ಸರಕಾರಿ ಕಾಲೇಜುಗಳಲ್ಲಿ ಅಧ್ಯಾಪಕ ಹಾಗು ಪ್ರಾಧ್ಯಾಪಕರಾಗಿ ಕೆಲಸ ಮಾಡಿ ನಿವೃತ್ತರಾದರು.             ಜನನ 5 ಫೆಬ್ರುವರಿ 1936 ದೇವನಹಳ್ಳಿ, ಮೈಸೂರು ಸಂಸ್ಥಾನ, ಬ್ರಿಟಿಷ್ ಇಂಡಿಯಾ              ಮರಣ 3 ಮೇ 2020 (ವಯಸ್ಸು 84)[೧] ಬೆಂಗಳೂರು ವೃತ್ತಿ ಸಾಹಿತಿ, ಪ್ರೊಫೆಸರ್ ಭಾಷೆ ಕನ್ನಡ ರಾಷ್ಟ್ರೀಯತೆ ಭಾರತ ಪ್ರಕಾರ/ಶೈಲಿ Fiction ಸಾಹಿತ್ಯ ಚಳುವಳಿ ನವ್ಯ ಕಾವ್ಯ ಪ್ರಮುಖ ಕೆಲಸಗಳು ಮನಸು ಗಾಂಧಿ ಬಜಾರು(1960) ನಿತ್ಯೋತ್ಸವ ಪ್ರಮುಖ ಪ್ರಶಸ್ತಿಗಳು ಪದ್ಮಶ್ರೀ (೨೦೦೮), ರಾಜ್ಯೋತ್ಸವ (೧೯೮೧) ಕೆಲವು ಸಾಹಿತ್ಯಗಳು : ನಿಸಾರ್ ಅಹಮದ್  ...

Education themed jokes:

1. Dad puts finger print(Thumb) on son's mark sheet. Child asked father: Being a chartered accountant, Why did you put finger print instead of signature on my progress card. Father replied: idiot,after looking at your marks, the teacher should not think that I am educated. 2. Critical thinking among children: Pintu: daadi neend nhi aa rahi, TV dekh lun? Daadi: mujh se baat kr le Pintu: daadi kya hum hamesha 6 hi rahenge? Aap, mom, dad, didi, main aur meri billi Daadi: nahi beta aapke liye kal doggy b aa raha h to 7 ho jaayenge Pintu: par doggy to billi ko kha jayega fir 6 ho jaayenge Daadi: nahi beta aap ki shaadi ho jaayegi to 7 ho jaayenge Pintu: fir behen chali jaayegi shaadi kr ke to fir 6 ho jaayenge Daadi: beta fir aapka beta ho jaayega to fir 7 ho jaayenge Pintu: tb tk aap mar jaaogi to fir hum wapas se 6 ho jaayenge Daadi: Bewqauf......jaa TV dekh 3. Once upon a time ..a small boy named Basheer lived in a tin...

What can my child study other than engineering degree:

Very Thoughtful advice... Just because I am holding a senior position in HR, I have been getting many requests from my relatives, friends, acquaintances, to help their sons or daughters, who have freshly passed out from engineering college, to get job in my company. The number of requests are huge. So many fresh engineers are unemployed, I could hardly helped only few of them to get job in my very successful company or in some other companies where I have contacts. I feel bad to say NO to many of the requests or for those whom I can't help. They get disappointed... I can understand. Parents invest their life time earned money just to see their sons or daughters getting degree in engineering. They think that jobs are easily available for engineers. After interviewing many of them, I can't even tell them that your son or daughter do not even have minimum required technical knowledge. Getting first class or distinction has become so easy without having fundamental knowledge of e...

Education system in Greece and Rome in ancient times: (In Urdu)-

یونان اور روم میں نظامِ تعلیم ڈاکٹر عرفان حبیب مغربی تعلیم کی تاریخ کا آغاز حضرت عیسیٰؑ سے سیکڑوں برس پہلے، یونانی قوم کی تعلیمی سرگرمیوں سے ہوتا ہے۔ اس تاریخ میں بیسویں صدی کی شروعات تک ایک تسلسل پایا جاتا ہے۔ ابتدائی دور میں یونانی شہری ریاستوں میں رہتے تھے۔ شروع ہی سے ان کے یہاں تعلیم کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ اچھے شہری تیار کرنے کے لیے تعلیم ضروری تھی۔ یہ ریاستیں دشمنوں میں گھری ہوئی تھیں اور اکثر اندرونی خطروں کا بھی سامنا کرنا ہوتا تھا۔ اس لیے شہریوں کی اس طرح سے تربیت ضروری تھی کہ وہ اندرونی اور بیرونی خطروں کا اچھی طرح مقابلہ کر سکیں۔ اس یونانی سماج کی بنیاد، غلامی کے نظام پر تھی جس میں غلاموں کی تعداد آزاد شہریوں سے کہیں زیادہ تھی۔ تجارت اور ہاتھ سے کام کرنے کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور یہ کام غلاموں سے لیے جاتے تھے، اس لیے شہریوں کو کوئی ٹیکنیکل تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ شہری ریاستیں کئی باتوں میں ایک دوسرے سے مختلف تھیں اور اس لیے ان کے تعلیم کے مقاصد بھی جدا جدا تھے مثلاً سپارٹا اور ایتھنز کے تعلیمی نظام بالکل الگ الگ تھے۔ سپارٹا کے شہری اپنے علاقے می...

Click to read: We have together 850+ Articles, Videos and Resources:

Click below topic you want to read: ⬇️ Download Credence App if not yet downloaded: Browse, read through your area of interest and share the app with your connections.

Who is Sir Hajee Ismail Sait of Bangalore:

 - Fukhr-ut-Tojjar Sir Hajee Ismail Sait: A Legacy of Business and Philanthropy Fukhr-ut-Tojjar Sir Hajee Ismail Sait (1859-1934) was a prominent Indian businessman, philanthropist, and community leader who left an indelible mark on South India.  He was an Indian banker, businessman and community leader who served as a member of the Madras Legislative Council . Born in Periyakulam, Tamil Nadu, Sait's entrepreneurial journey began early, driven by a strong work ethic and a keen business acumen. A Business Empire Takes Shape Sait's first venture, the "English Warehouse," proved to be a resounding success, catering to the needs of the British community in Bangalore. His entrepreneurial spirit, however, did not limit him to a single venture. He diversified into a wide range of businesses, including mines, and manufacturing units. His astute business decisions saw him rise to become one of the wealthiest merchants in South India. Very quickly, Ismail Sait built on the succ...